سوانح عمری : حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ

Baghdad- City of Birth Hazrat Abdul Qadir Jilani

باب اول:نام ونسب اورولادت وانتقال

نام ونسب

القطب الربانی والف دالجامع الصمدانی سیدنا حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی علیہ رحمتہ مقتداۓ اولیاۓ عظام سے ہیں جو کوئی آپ کی طرف رجوع کرتااسےسعادت ابدی حاصل ہوتی۔ محی الدین آپ لقب اور ابو محمدآپ کی کنیت اورعبدالقادرآپکا نام ہے ۔ آپ کانسب اس طرح ہےمحی الدین ابومحمد عبدالقادربن ابی صالح جنگی دوست یابقولِ بعض جنگادوست موسیٰ بن ابی عبداللہ یحیٰ الزاہد بن محمد بن داؤدبن موسیٰ بن عبداللہ بن موسیٰ الجون بن عبداللہ المحض ( جنہیں عبداللہ المجل بھی کہتےتھے) بن حسن المثنیٰ بن امیرالموؑمنین علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن یاس بن مضر بن نزار بن معدب بنعدنان القریشی الہاشمی العلوی الحسنی الجیلی الحنبلی ۔
والدماجد
حافظ ذہبی وحافظ ابن رجب نے بیان کیا ہے کہ آپ یعنی حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ کے والد ماجد حضرت ابو صالح جنگی دوست تھے ۔ مؤلف کہتا ہے کہ جنگی دوست فارسی لفظ ہے جس کے معنی جنگ سے انسیت رکھنے والے ہیں۔
والدہ ماجدہ
آپ کی والدہ ماجدہ کی کنیت اُم الخیراور امتہ الجبار ان کا لقب اور فاطمہ نام تھا آپ حضرت عبداللہ الصومعی الزاہد الحسینی کی دختر اور سراپاخیروبرکت تھیں۔
تاریخ ومقام  پیدائش

قطب الدین یونینیؒ نے بیان کیا ہے کہ آپ 470 ہجری میں پیداہوۓ آپ کے صاحبزادے حضرت عبدالرزاقؒ فرماتےہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد سے آپکا مقام پیدائش پوچھا: تو آپ نے فرمایا! مجھے اس کا حال ٹھیک طور سے معلوم نہیں مگر ہاں!مجھے اپنا بغداد آنا یاد ہے کہ جس سال تمیمی کا انتقال ہوا اسی سال میں بغداد آیا اس وقت میری اٹھارہ برس کی عمر تھی اور تمیمی نے 488ھ میں وفات پائی۔

علامہ شیخ شمس الدین بن ناصرالدین محدث دمشقی نے بیان کیا ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت بمقام گیلان 470ھ میں واقع ہوئی اس کے بعد انہوں نے بیان کیا ہے گیل دو مقام کا نام ہے ۔

اول: ایک وسیع ناحیہ کا جو ویلم کے قریب واقع ہوا ہے اور بہت سے شہروں پر مشتمل ہے مگر ان میں کوئی بڑا شہر نہیں ۔

دوم : سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے شہر کا نام ہے جسے جیل بكسره جیم اور کیل و گیل(بکاف عربی و فارسی ) کہتے ہیں۔

اور حافظ ابوعبدالله محمدبن سعد ومیثنیؒ نے اسے کال کہا ہے انہوں نے یہ لفظ ابن حاج شاعر کے اشعار سے اخذ کیا ہے کیونکہ ابن حاج شاعر نے اپنے بعض اشعار میں کیل کو کال کہا ہے جو بلاد فارس کے مضافات میں سے ایک قصبہ کا نام ہے ۔

حافظ محب الدین محمد بن نجار نے اپنی تاریخ میں ابوالفضل احمد بن صالح حنبلی کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ کی ولادتِ باسعادت 471ھ میں واقع ہوئی اورابوعبداللہ محمد الذ ہبی نےبھی یہی بیان کیاہے ۔

الروض الظاہرکےمؤلف نےآپ کےحالات بیان کرتےہوۓ لکھا ہےکہ آپ مقام جیل(بکسرجیم وسکون یاۓتحتانی)کی طرف منسوب ہیں جسےگیل وگیلان بھی کہتےہیں ۔

مؤلف بہجةالاسرارنےشیخ ابوالفضل احمدبن شافع کا قول نقل کرتےہوۓ بیان کیا ہےکہ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ کی ولادت باسعادت 471ھ میں بمقام نیق جو بلاد جیلان سےمتعلق ایک قصبہ کا نام ہے اورجیلان طبرستان کےقریب ایک چھوٹے سےحصہ( مثلاً ہندوستان میں اودھ)کانام ہےجوشہروں اوربستیوں پرمشتمل ہے۔

تاریخ ومقام وفات

آپ نےاپنی عمربےبہاکاایک بہت بڑاحصہ شہربغداد میں گزارااوروہیں پرشنبہ کی رات کوبتاریخ ہشتم ربیع الثانی 561ھ میں وفات پائی اور دوسری شام کو اپنےمدرسےمیں جوبغداد کےمحلّہ باب الازجہ میں واقع تھامدفون ہوۓ۔

ابن جوزی کےنواسےعلامہ شمس الدین ابوالمظفریوسفؒ نےاپنی تاریخ میں لکھا ہےکہ آپ نے561ھ میں وفات پائی اور ہجوم خلائق کی وجہ سےآپ شب کومدفون ہوۓ کیونکہ بغداد میں ایسا کوئی شخص نہ تھا جو آپ کےجنازے میں شریک نہ ہواہو

بغداد کے محلہ حلبہ کی تمام سڑکیں اوراس کےمکانات لوگوں سےبھرگۓتھےاسی لئےآپکودن میں دفن نہیں کرسکے۔

ابن اثیر اور ابن کثیرنے بھی اپنی اپنی تاریخ میں یہی بیان کیا ہے ۔

ابن نجار نے بیان کیا ہے کہ شنبہ کی رات کو بتاریخ دہم ربیع الثانی 561ھ میں آپ نے وفات پائی اور آپکی تجہیزوتکفین سے شب کو فراغت ہوئی آپ کے صاحبزادے حضرت عبدالوہاب نے ایک بڑی جماعت کے ساتھ جس میں آپ کے دیگر صاحبزادے اور آپ کے خاص احباب اور آپ کے تلامذہ وغیرہ سب موجود تھے آپ کے جنازے کی نماز پڑھی اور آپ ہی کے مدرسہ کے سائبان میں آپکو دفن کرکے دن نکلنےتک مدرسہ کا دروازہ بند رکھا پھر جب دروازہ کھلا تو آپ کے مزارپرانوار لوگ نماز پڑھنے اور زیارت کرنے کے لۓ بکثرت آنے لگے جس طرح سے کہ جمعہ یا عید کو لوگ آیا کرتے ہیں۔

اس وقت بغداد کا خلیفہ المستجند بااللہ ابوالمظفر یوسف بن المقتضٰی العباسی تھا جو 518ھ میں پیدا ہوا اور 555ھ میں اپنے باپ المقتضٰی لامراللہ کی وفات کے بعد مسند خلافت پر بیٹھا اور اڑتالیس برس کی عمر صرف گیارہ برس خلافت کر کے 566ھ میں راہی ملک بقاہوا۔ یہ خلیفہ عدل انصاف سے موصوف صاحب الراۓ تیز فہم تھا شعر وسخن کا مذاق اور اضطراب وغیرہ آلاتِ فلک میں مہارتِ تمام رکھتا تھا ۔

مترجم حافظ زین الدین بن رجب نےاپنےطبقات میں بیان کیاہےکہ نصیرالنمیری نے جس شب کوآپ دفن ہوۓاس کی صبح کو آپ کےمرثیہ میں ایک قصیدہ کہا:جسکاپہلاشعریہ تھا ۔

مشکل الامرذاالصباح الجدید

لیس لہ الا مرمن ذالک السنا المعھود

ترجمہ: یہ صبح کاجدیدواقعہ نہایت مشکل ہےجس سےصبح کی مقررہ روشنی مطلق نہیں رہی ۔

نیزبیان کیا ہےکہ نصرالنمیری نےآپ کےمرثیہ میں اس کےسواایک اوربھی قصیدہ کہاتھا ۔

باب دوم:بچپن کےحالات

 

ایام شیرخوارگی میں احترامِ رمضان

 

آپ کی والدہ ماجدہ فرمایاکرتیں تھیں کہ میرےفرزندِارجمند عبدالقادرجب پیدا ہوۓ تورمضان کےدنوں میں دودھ نہیں پیتےتھے پھرانتیس ماہ رمضان کو جب مطلع صاف نہ تھااوربدلی کی وجہ سےلوگ چاند نہ دیکھ سکےتوصبح کولوگ میرےپاس پوچھنےآۓکہ آپ کےصاحبزادے نےدودھ پیایانہیں میں نےانہیں کہلابیجھاکہ نہیں پیا جس سےانہیں معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہےجیلان کے تمام شہروں میں اس بات کی شہرت ہوگئ تھی کہ شرفاۓ جیلان میں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جورمضان میں دودھ نہیں پیتا آپکی والدہ ماجدہ جب حاملہ ہوئیں توکہتی ہیں کہ اس وقت انکی ساٹھ برس کی عمرتھی اورساٹھ برس کی عمر میں کہتےہیں قریش کےسوا اورپچاس برس کی عمر میںبعرب کےسواکسی کوحمل نہیں رہتا

بچوں کےساتھ کھیلنےسےبازرہنا

 

آپ نےیہ بھی فرمایاکہ جب میں اپنےگھر پرصغیرسن تھااورکبھی بچوں سےکھیلنےکاقصدکرتاتومجھےکوئی پکار کرکہتا:کہ آؤ تم میرےپاس آجاؤ تو میں گھبراکربھاگ جاتااوروالدہ ماجده کی آگوش میں چھپ جاتااوراب میں یہ آواز خلوت میں بھی نہیں سنتا ۔

بچپن میں ولادت کاحال معلوم ہوجانا

 

آپ سےکسی نےپوچھا: کہ آپ کویہ بات کب سےمعلوم ہےکہ اولیاءاللّه سےہیں؟ آپ نےفرمایا: جبکہ میں اپنےشہرمیں بارہ برس کےسن کاتھااورپڑھنےکےلئےمکتب جایا کرتاتھاتومیںنےاردگردفرشتوں کوچلتےدیکھاتھااورجب میں مکتب پوھنچاتوفرشتوں کوکہتےسناکہ ولی اللّه کوبیٹھنےکی جگہ دو۔

ایک روزمیرےپاس سےایک شخص گزراجسےمیں مطلقانہیں جانتاتھااس نےجب فرشتوں کو یہ کہتےسناکہ کشادہ ہوجاؤاورولی اللّه کےبیٹھنےکےلئےجگہ خالی کردوتواس شخص نےفرشتوں سےپوچھا: کہ یہ کس کالڑکا ہے؟ایک فرشتہ نےان سےکہا:کہ یہ ایک شریف گھرانےکالڑکاہےانہوں نےکہا: کہ یہ عظیم الشان شخص ہوگاپھرچالیس برس بعدمیں نےاس شخص کوپہچانا کہ ابدال وقت سےتھے ۔

بغدادکوروانگی اوراس کاسبب

 

پھرآپ نےفرمایا: جب میں اپنےشہرمیں صغی سن تھاتو میں ایک روزعرفہ کےدن دیہات کی طرف نکلااورکھیتی کےبیل کےپیچھےہولیااس نےمیری طرف دیکھا اورکہا:عبدلقادر! تم اس لئےپیدانہیں ھوۓہومیں گھبراکراپنےگھرلوٹ آیااوراپنےگھرکی چھت پرچڑھ گیااورلوگوں کومیں نےعرفات کے میدان میں کھڑےدیکھاپھرمیں اپنی والدہ ماجده کےپاس آیااورمیں نےان سےعرض کیا کہ آپ مجھےخدا کی راہ میں وقف کردیں اور مجھےبغدادجانےکی اجازت دیں کہ میں وہاں جاکرعلم حاصل کروں آپ نےمجھ سےاسکاسبب دريافت کیاتومیں نےانھیں یہی واقعہ سنادیاآپ چشم بگریہ ہوئیں اور80 دینارجووالدماجد نےآپ کےپاس چھوڑےتھےمیرےپاس لیکرآئیں میں نے ان میں سےچالیس دینارلےلئےاورچالیس دیناراپنےبھائی کےلئےچھوڑدیئےآپ نےمیرےچالیس دینارمیری گدڑی میں سی دیےاورمجھےبغدادجانےکی اجازت دی اورآپ نے مجھےخواہ میں کسی حال میں ہوں راست گوئی کی تاكیدکی میں چلا اورآپ بھرتک مجھےرخصت کرنےآئیں اورفرمایا: اےفرزند میں محض لوجہ اللّه (اللّه کے لئے)اپنےپاس سےجداکرتی ہوں اوراب مجھےتمہارامنہ قیامت ہی کو دیکھنا نصیب ہوگا ۔

سفربغدادمیں آپکےقافلہ کالٹ جانا

 

پھرمیں آپ سےرخصت ہوکرایک چھوٹےسےقافلےکےساتھ جوبغدادجاتا تھا ہولیاجب ہم ہمدان سےگزرکرایک ایسےمقام میں پوھنچےجہاں کیچڑ بکثرت تھی تو ہم پرساٹھ سوارٹوٹ پڑھےاورانہوں نےقافلہ کولوٹ لیااورمجھ سے کسی نے بھی تعرض نہ کیامگرتھوڑی دورسےایک شخص میری طرف لوٹا۔ کہنےلگاکیوں تیرےپاس بھی کچھ ہے؟ میں نےکہا : ہاں میرےپاس چالیس دینارہیں اس نےکہا : پھروہ کہاں ہیں؟ میں نےکہا میری گدڑی میں میری بغل کےنیچےسلےہوےہیں اس نےجاناکہ میں اس کےساتھ ہنسی کررہا ہوں اسلئےمجھےچھوڑکرچلاگیااس کےبعدمیرےپاس دوسراشخص آیا اورجوکچھ مجھ سےپہلےشخص نےپوچھاتھاوہی اس نےبھی پوچھامیں نےجوپہلےشخص کوجواب دیاوہی اس سےبھی کہااس نےبھیمجھےچھوڑدیا ان دونوں نےجاکراپنےسردارکوخبرسنائی تواس نےکہا :کہ اسےمیرےپاس لاؤوہ آکرمجھےاسکےپاس لےگئےاس وقت یہ لوگ ایک ٹیلے پربیٹھےہوۓ قافلہ کامال تقسیم کررہےتھےان کےسردارنےمجھ سےپوچھا: کہو تیرے پاس کیا ہے؟میں نےکہا: چالیس دیناراس نےکہا: کہ وہ کہاں ہیں؟میں نےکہا: میری بغل کےنیچےسےگدڑی میں سلےہوۓ ہیں اس نےمیری گدڑی کےادھیڑنےکا حکم دیاتو میری گدڑی ادھیڑی گئی اوراسمیں چالیس دینارنکلےاس نےمجھ سےپوچھاکہ تمہیں ان کااقرارکرنےپرکس چیزنےمجبورکیا؟ میں نے کہا: میری والدہ ماجده نےمجھےراستگوئی کی تاكیدکی ہےمیں ان سےعہد شکنی نہیں کرسکتا۔

راہزنوں کاسردارمیری گفتگو سن کررونےلگا اورکہنےلگا: کہ تم اپنی والدہ ماجده سےعہد شکنی نہیں کرسکتےاورمیری عمرگزرگئی کہ میں اس وقت تک اپنے پروردگارسےعہد شکنی کررہا ہوں پھراس نےمیرے ہاتھ پرتوبہ کی پھر اس کےسب ہمراہی اس سےکہنےلگےکہ تو لوٹ مارمیں ہم سب کا سردارتھا اب توبہ کرنےمیں بھی تو ہمارا سردار ہےان سب نےبھی میرےہاتھ پرتوبہ کرلی اور سب نےقافلہ کا سارا مال واپس کردیا یہ پہلا واقعہ تھا کہ لوگوں نےمیرےہاتھ پر توبہ کی ۔

باب سوم:حصولِ علم،بعیت،ریاضت اورسیاحت

 

بغداد روانگی

 

جب آپ پیداہوۓ تو آپ نےاپنے بغداد جانےکےوقت تک نازونعمت میں پرورش پائی اورہمیشہ آپ پر توفیق الہی شامل حال رہی پھرآپ اٹھارہ برس کی عمرمیں جس سال تمیمی نےوفات پائی آپ بغداد تشریف لےگئےاس وقت بغداد کا خلیفہ المستنصر بااللّه ابوالعباس احمدبن المقتدیٰ بامراللہ العباسی تھا 

جوخلفاۓعباسیہ میں سےتھا 470ھ میں پیدا ہوا اوراپنےوالدکی وفات کےبعد16 برس کی عمرمیں مسند خلافت پر بیٹھا اور 512ھ میں بعمربیالیس سال راہی ملک بقا ہوا ۔

حضرت خضرعلیہ السلام کاآپکوبغدادمیں داخل ہونےسےروکنا

 

شیخ تقی الدین واعظ بنانیؒ نےاپنی کتاب”روضتہ الابرارو محاسن الاخیار” میں لکھا ہےکہ جب آپ بغدادکےقریب پہنچے توحضرت خضرعلیہ السلام نےآپ کواندرجانےسےروکااورکہاکہ ابھی تمہیں سات برس تک اندرجانےکی اجازت نہیں اس لئےآپ سات برس تک دجلہ کےکنارے ٹھہرےرہےاورشہرمیں داخل نہ ہوۓاورصرف ساگ وغیرہ سےاپنی شکم پُری کرتےرہےیہاں تک کہ اسکی سبزی آپ کی گردن مبارک سےنمایا ہونےلگی پھر جب سات برس پورے ہوگئےتوآپ نے شب کوکھڑےہوکریہ آوازسنی کہ عبدالقادر! اب تم شہرکےاندرچلےجاؤگوشب کوبارش ہورہی تھی اورتمام شب اسی طرح ہوتی رہی مگرآپ شہرکےاندر چلےگۓاورشیخ حماد بن مسلم دباس کی خانقاہ پراترےشیخ موصوف نےاپنےخادم سےروشنی بھجواکرخانقاہ کادروازہ بند کرادیااس لیےآپ دروازے پرہی ٹھہرگۓ اورآپ کونیند بھی آگئ اوراحتلام ہوگیاتو آپ نےاٹھ کرغسل کیاآپکوپھرنیندآگئ اوراحتلام ہوگیاآپ نےاٹھ کرپھرغسل کیا اسی طرح آپکو شب بھر میں سترہ دفعہ احتلام ہوااورسترہ دفعہ ہی آپ نےغسل کیا پھرجب صبح ہوئی اوردروازہ کھلا توآپ اندرگۓشیخ موصوف نےآپ سےاٹھ کرآپ سےمعانقہ کیا اورآپکوسینےسے لگاکرروۓاورکہنےلگےکہ فرزندعبدالقادر: آج دولت ہمارےہاتھ ہےکل تمہارے ہاتھ آۓگی توعدل کرنا 

بہجةالاسرارکےمؤلف شیخ ابوالحسن علی بن یوسف بن جریرالشافعی اللحمی(منسوب بہ قبیلہ لحم)نےآپ کےبغدادجانےکا خیرمقدم کیاہےوہ لکھتےہیں کہ اس سرزمین کےلۓایسےمبارک آنےوالےکا قدم رکھناجہاں اس کےآنےسےسعادت مندی کےجملہ آثارنمایاہوگئےبڑی خوش قسمتی کی بات ہےکہ اس کاقدم پہنچنے سےرحمت کی بدلیاں چھاگئیں اورباران رحمت برسنےلگاجس سےاس سرزمین میں ہدایت کی روشنی دگنی ہوگئی اورگھر گھراجالاہوگیاپےدرپےقاصدمبارکبادی کےپیغام لانےلگےجس سےوہاں کا ہر ایک وقت عیدہوگیااس زمین سےہماری مرادعراق عرب ہےجس کادل

(یعنی بغداد)محبت بشریٰ کےنورسےوجد میں آگیا اورجس کےشگوفےداردرخت اس آنےوالےکا منہ دیکھ کراپنےشگوفوں کی زبان سےخداۓ تعالی کی حمدوثناء کرنےلگے

حصولِ علم

 

جب آپ نےدیکھا کہ علم کاحاصل کرنا ہر مسلمان پرصرف فرض ہی نہیں بلکہ وہ نفس مریضہ کے لئےشفاۓ کلی بھی ہےوہ پرہیزگاری کا ایک سیدھاراستہ اورپرہیزگاری کی ایک حجت اور واضع دلیل ہےوہ یقین کےتمام طریقوں میں سب سےاعلٰی وانسب ہےاور تقوی و پرہيزگاری کا وہ ایک بڑا درجہ اورمناصبِ زمینی میں سب سےارفع نیک لوگوں کا مایہ فخروناز ہےتوآپ نےاس کےحاصل کرنےمیں جلدکوشش کی اوراس کےتمام فروع واصول کو دوروقریب کےعلماۓکرام و مشائخ عظام وآئمہ اعلام سےنہایت جدوجہدسےحاصل کیا

خرقہ شریف پہنایاجانا

 

خرقہ شریف آپ نےقاضی ابوسعیدالمبارک المخزومی موصوف الصدرسےپہنا اور انہوں نےشیخ ابوالحسن بن علی بن احمدالقریشی سےانہوں نےابوالفرح الطرطوسی سےانہوں نےابوالفضل عبدالواحدالتمیمی سےانہوں نےاپنےشیخ ابوبکرشیخ شبلی سےانہوں نےشیخ ابوالقاسم جنیدبغدادی سےانہوں نےاپنے ماموں سری سقطی سے انہوں شیخ معروف کرخی سےانہوں نےداؤدطائی سےانہوں نےسیدحبیب عجمی سےانہوں نےحضرت حسن بصری سےانہوں نےحضرت علی کرم اللہ وجہہ سےآپ نے جناب سرورِکائنات حضُورنبی مُکرّمﷺ سےلیا آپ نےجبرائیل علیہ السلام سےانہوں نے حضرت جل وعلیٰ سےتقدست اسماہ 

آپ سےکسی نےپوچھا: کہ آپ نے خداۓ تعالی سےکیاحاصل کیا؟ توآپ نےفرمایا: کہ علم وادب ۔ 

خرقہ کا ایک اور بھی طریقہ ہے جس کی سند علی بن رضا تک پہنچی ہےلیکن حدیث کی سندکی طرح وہ ثابت نہیں ۔

قاضی ابوسعیدالمخزومی موصوف الصدر میں لکھتےہیں کہ ایک دوسرے سے تبرک حاصل کرنے کے لیے میں نے شیخ عبدالقادرجیلانی کواورانہوں نے مجھے خرقہ پہنایا ۔

مؤلف”مختصرالروض الزاہر”علامہ ابراہیم الدیری الشافعی نے بیان کیا ہے کہ آپ نے تصوف شیخ ابویعقوب یوسف بن ابوایوب الہمدانی الزاہدسےحاصل کیا ۔

قیام بغدادمیں پیش آنےوالی مشکلات

 

بیس روزکافاقہ

 

شیخ طلحہ بن مظفرعلثمی بیان کرتے ہیں کہ شیخ عبدالقادرجیلانیؒ نے بیان فرمایا: کہ جب بغدادمیں میں نےقیام کیا تو بیس روز تک مجھےکوئی چیزکھانےکونہیں ملی اس لیےمیں ایوانِ کسریٰ کیطرف گیاکہ شایدوہاں سےکوئی چیزمجھےدستیاب ہومگرمیں نےجاکردیکھاکہ میرےسواستراولیاءاللہ اوربھی اپنےکھانےکےلیےکوئی مباح چیزتلاش کررہیں ہیں میں نےاس حال میں انہیں تکلیف دیناخلاف مروّت جانااسلیےمیں بغدادلوٹ آیایہاں ایک شخص مجھےمیرے شہرکاملاجسے میں نہیں جانتا تھا اس شخص نےمجھےکچھ سونےچاندی کےریزےدیےاورکہا: یہ تمہارےلیےتمہاری والدہ ماجدہ نےبھیجےہیں میں فوراً اس ویران محل کی طرف گیااوران ریزوں میں سےایک ریزہ میں نےرکھ لیااورباقی انہیں اولیاۓکرام کوجومیری طرح وہ بھی قوت لایموت تلاش کررہےتھےتقسیم کردیےانہوں نےمجھ سےپوچھا:کہ یہ کہاں سےلاۓمیں نےکہا:یہ میرےلیےمیری والدہ ماجدہ نے بھیجے ہیں میں نے نامناسب جاناکہ میں اپنےحصےمیں آپ لوگوں کو شریک نہ کروں پھرمیں بغدادلوٹ آیااوراس ایک ریزےکا جسےمیں نےاپنےلیےرکھ لیاتھا کھاناخریدااورفقراءکوبلاکریہ کھاناہم سب نےملکرکھایا

بغدادکی قحط سالی

 

ابوبکرالتمیمی بیان کرتےہیں کہ میں نےشیخ عبدالقادرجیلانی سےسنا آپ نےبیان کیاکہ جب بغداد میں قحط سالی ہوئی تومجھےاس وقت نہایت تنگ دستی پہنچی کئی روزکت میں نےکھانابلکل نہیں کھایابلکہ اس اثناء میں کوئی پھینکی ہوئی چیز تلاش کرتااوراسےکھالیتاایک روز بھوک نے مجھے بہت ستایااس لیےمیں دجلہ کی طرف چلاگیاکہ شایدوہاں سےبھاجی ترکاری کے پتےجوپھینک دیے جاتےہیں مل سکیں تاکہ میں اس سےبھوک کی آگ بھجالوں مگرمیں جدھرجاتاوہیں پراورلوگ مجھ سے پہلےموجودہوتےاورجوکچھ ملتااسےوہ اٹھالیتےاگرمجھےکوئی چیزملتی بھی تواس وقت بھی بہت سے فقراء میرےپاس موجودہوتےاور ان سے میں مزاحمت اورپیش قدمی کرکےاس چیزکولےلینااچھا نہیں جانتا تھاآخرکومیں شہرمیں لوٹ آیا یہاں مجھےکوئی ایساموقع نہیں ملا کہ جہاں کوئی پھینکی ہوئی چیز لوگوں نےمجھ سے پہلے نہ اٹھالی ہو۔

غلبہٓ بھوک میں کمال صبر

 

غرضیکہ میں پھرتےپھرتےسوق الریحانین(بغدادکی ایک مشہورمنڈی)کی مسجدکےقریب پہنچااسوقت مجھ کوبھوک کاایساغلبہ ہوا کہ جسےمیں کسی طرح روک نہیں سکتاتھااب میں تھک کراس مسجدکےاندرگیااوراس کےایک گوشےمیں جاکربیٹھ رہااس وقت گویامیں موت سے ہاتھ ملارہاتھا کہ اسی اثناء میں ایک فارسی جوان مسجدمیں نان اوربھناگوشت لےکرآیااورکھانےلگا۔ بھوک کےغلبہ کی وجہ سے یہ کیفیت تھی کہ جب کھانے کےلیےوہ لقمہ اٹھاتاتومیں اپنامنہ کھول دیتا حتیٰ کہ میں نےاپنےنفس کواس حرکت سےملامت کی اوردل میں کہا:کہ یہ کیا نازیباحرکت ہے یہاں بھی آخرخداہی موجودہے اورایک دن مرنابھی ضرورہے

پھراتنی بےصبری کیوں ہے؟ اتنےمیں اس شخص نے میری طرف دیکھااوراس نےمجھ سےصلاح کی کہ بھائی آؤشریک ہوجاؤ میں نے انکارکیا اس نےمجھےقسم دلائی اورکہا:نہیں نہیں آواورشریک ہوجاؤمیرےنفس نےفوراً اسکی دعوت کوقبول کرلیامیں نےکچھ تھوڑاساہی کھایا تھا 

کہ مجھ سے میرےحالات دریافت کرنےلگاآپ کون اورکہاں کےباشندےہیں؟ 

اورکیامشغلہ رکھتےہیں؟ میں نےکہا: کہ میں جیلان کا رہنےوالاہوں اورطالب علم ہوں اس نے کہا:میں بھی جیلان کا ہوں اچھاآپ جیلان کےایک نوجوان کوجس کانام عبدالقادرہے پہچانتےہہں مہں نےکہا:یہ وہی خاکسارہےیہ جوان اتناسن کر بےچین ہوگیا اوراسکے چہرےکارنگ متغیرہوگیا اور کہنے لگا:بھائی خدا کی قسم! میں کئی روز سے تمہیں تلاش کررہاہوں جب میں بغداد داخل ہوا تواس وقت میرےپاس اپناذاتی خرچ بھی موجودتھا مگرجب میں نے تمہیں تلاش کیاتومجھےکسی نےبھی تمہاراپتا نہیں بتلایا اورمیرے پاس اپناخرچ پوراہوچکا آخرکومیں تین روزتک اپنےکھانےکےکیےسواۓاس کے کہ تمہاراخرچ موجودتھاکچھ بندوبست نہ کرسکا جب میں نےدیکھا کہ مجھے تیسرا فاقہ گزرنےکوہےاور شارع نے پےدر پےفاقہ ہونے کی حالت میں تیسرےروز مردارکھانےکی اجازت دیدی ہے اس لیے میں آج تمہاری امانت میں سےایک وقت کے کھانےکےدام نکال کریہ کھاناخریدلایا ہوں اب آپ خوشی سےیہ کھاناتناول کیجیۓ یہآپ ہی کا کھاناہےاورمیں آپکامہمان ہوں گوبظاہریہ میراکھاناتھا اورآپ میرےمہمان تھے میں نےکہا:توپھراس کی تفصیل بھی بتلائیےاس نےکہا کہ آپکی والدہ ماجدہ نے آپ کےلیےمیرےہاتھ آٹھ دیناربھیجے ہیں میں نےکھانا اسی میں سےخریدا ہے اور میں آپ سے اپنی اس خیانت کی معافی چاہتاہوں کہ شارع نےمجھےاس کی اجازت دی تھی میں نےکہا:یہ کوئی خیانت نہیں آپ کیاکہتے ہیں پھرمیان نےاسے تسکین دی اوراطمینان دلاکراس بات پراپنی خوشی ظاہرکی پھرہم دونوں سےجوکچھ بچ رہاوہ میں نے اسی نوجوان کوواپس کردیا اورکچھ نقدی بھی دی اس نےقبول کرلی اورمجھ سے رخصت ہوا۔

ضبطِ نفس

 

شیخ عبداللہ سلمی بیان کرتےہیں کہ میں نے حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ سے سنا آپ نے بیان کیاکہ ایک دفعہ کاذکرہے کہ میں نے کئی روزتک کھانا نہیں کھایا تھا اتفاق سےمیں محلّہ شرقیہ میں چلاگیاوہاں مجھے ایک شخص نےایک چٹھی دی جسےمیں نے لےلیا اور ایک حلوائی کودےکر حلوہ پوریاں لےلیں اور اپنی اس سنسان مسجدمیں گیاجہاں بیٹھ کرمیں اپنےاسباق دوہرایاکرتاتھا 

میں نے یہ حلوہ پوری لےجاکرمحراب میں اپنے سامنےرکھدیا اوراب یہ سوچنےلگاکہ یہ حلوہ پوری کھاؤں یا نہیں اتنےمیں میری نظرایک پرچہ پرپڑی جودیوار کے سایہ میں پڑاہواتھا میں نےاس کاغذکواٹھالیا اس میں لکھاتھا کہ اللہ تَعَالٰی نے اپنی بعض کتابوں میں سے کسی کتاب میں فرمایاہے کہ خدا کےشیروں کو خواہشوں اور لذتوں سےکیا مطلب خواہشیں اور لذتیں تو ضعيف اور کمزورلوگوں کےلیےہیں تاکہ وہ اپنی خواہشوں اور لذتوں کےذریعہ سے طاعت وعبادتِ الہی کرنےمیں تقویت حاصل کریں میں نےیہ کاغظ پڑھ کراپنا رومال خالی کرلیااور حلوہ پوری کومحراب میں رکھ دیا اور دو رکعت نمازپڑھ کرچلا آیا ۔

شیخ ابوعبداللہ نجار نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے شیخ حضرت عبدالقادرجیلانیؒ نےفرمایا کہ مجھ پربڑی بڑی سختیاں گزراکرتی تھی اگروہ سختیاں پہاڑپرگرتیں تو پہاڑبھی پھٹ جاتا۔

صبرواستقلال

 

جب وہ مجھ پربہت ہی زیادہ گزرنےلگتیں تومیں زمین پر لیٹ جاتااوریہ آیة کریمہ

فان مع العسریسراًان مع العسریسرا  پڑھتایعنی: بےشک ہرایک سختی کےساتھ آسانی ہے بےشک ہرایک سختی کےساتھ آسانی ہے پھر میں آسانی سےسراٹھاتاتو میری ساری کلفتیں دورہوجاتیں پھرآپ نےفرمایا: جبکہ میں طالب علمی کرتےہوۓمشائخ واساتذہ سےعلم فقہ پڑھتاتھا تومیں سبق پڑھ کرجنگل کی طرف نکل جاتااوربغدادمیں نہ رہتا اورجنگل کےویران اور خراب مقامات میں خواہ دن ہوتا یا رات ہوتی رہاکرتا اس وقت میں صوف کاجبہ پہنا کرتا تھا اورسرپرایک چھوٹا سا عمامہ باندھتاتھا۔ ننگےپیر کانٹوں اور بےکانٹوں کی جگہوں میں پھرتارہتا کاہو کاساگ اور دیگرترکاریوں کی کونپلیں اورخرنوب بری جومجھےنہراوردجلہ کے کنارےمل جایاکرتیں کھالیاکرتاتھا ۔

سبزی فروش سےقرض لینا

 

شیخ ابومحمدعبداللہ جبائی کہتےہیں کہ مجھ سےشیخ عبدالقادرجیلانیؒ نےفرمایا: ایک وقت جنگل میں بیٹھاہوامیں اپناسبق دہرارہا تھا اوراس وقت حددرجہ کی تنگی مجھے دامن گیرتھی مجھےاس وقت کسی کہنے والےنےجسےمیں نہیں دیکھ سکتاتھایہ کہا کہ تم کسی سےقرض لےلوجس سےتمہیں تحصيل علم میں مددملےمیں نےکہا: میں تو فقیرآدمی ہوں میں کس سےاورکس امیدپر قرض لوں؟ اس نےکہا:نہیں تم کسی سےکچھ قرض لےلواس کااداکرناہمارےذمہ ہے بعدازاں سبزی فرش کےپاس آیامیں نےاس سےکہاکہ بھائی اگرتم ایک شرط پرمیرے ساتھ کچھ سلوک کرلومجھ پرتمہاری ازحد مہربانی ہوگی وہ شرط یہ ہےکہ جب کچھ ہاتھ آۓگاتومیں تمہیں اس کامعاوضہ ادا کردوں گااوراگرمیں اپناوعدہ پورانہ کرسکا توتم اپناحق مجھےمعاف کردینامیں چاہتاہوں کہ تم مجھ پرمہربانی کرکےروزانہ ڈیڑھ روٹی دےدیاکروسبزی فرش میری یہ بات سن کررودیااورکہنےلگا:کہ حضرت میں نے آپکواجازت دی جوکچھ ااپکاجی چاہےمجھ سےلےجایاکریں چناچہ میں اس سےروزانہ ڈیڑھ روٹی لےآیاکرتاپھرجب مجھےاس شخص کی روزانہ ڈیڑھ روٹی لیتےہوۓ ایک مدت گزرگئی تومیں ایک روزبہت فکرمندہواکہ اسےمیں ابتک کچھ نہیں دے سکاتومجھ سےکسی نےاس وقت کہا:کہ تم فلانی دوکان پرجاؤاوراس دوکان پرتمہیں جو کچھ ملےاسےاٹھاکرسبزی فروش کودےدو جب میں اس دوکان پرآیاتواس پرمیں نے سونےکاایک بڑاٹکڑادیکھااسےمیں نےاٹھالیا اورجاکرسبزی فروش کودےدیا۔

یعقوباکےبزرگ کی نصیحت

 

شیخ ابومحمدعبداللہ جبائی کہتےہیں کہ جب ااپ نےمجھ سےیہ بھی بیان فرمایا:بغداد میں جس جگہ کہ میں فقہ پڑھتاتھاوہیں پرایک اہل بغدادسےایک اوربھی بہت بڑی جماعت فقہ پڑھتی تھی جب غلہ کی فصل قریب ہوتی تویہ لوگ ایک گاؤں میں جویعقوباکے نام سےمشہورہےجایاکرتےاوروہاں سےکچھ غلہ وغیرہ وصول کرلاتےایک وقت انہوں نےمجھ سےبھی کہاکہ آؤتم بھی ہمارےساتھ یعقوباچلوہم وہاں سےغلہ وغیرہ لائیں گے چونکہ میں اس وقت کم سن تھااس لئےمیں بھی انکےہمراہ گیااس وقت یعقوبامیں ایک نہایت ہی بزرگ اورنیک بخت شخص تھے جوشریف یعقوبی کےلقب سے پکارےجاتے تھےمیں ان بزرگ سےشرف نیاز حاصل کرنےکےلئےان کی خدمت میں گیاتوانہوں نےاثناۓکلام میں مجھ سےفرمایا:کہ طالب حق اورنیک بخت لوگ کسی سےکبھی سوال نہیں کرتےپھرانہوں نےخصوصیت کےساتھ اس بات سےمنع فرمایا: کہ آئندہ کبھی کسی سے سوال نہ کروں پھراس کےبعدمیں کہیں نہیں گیااورنہ کسی سےپھرمیں نےسوال کیا۔

ریاضت اورمجاہدےمیں آپکی کیفیات

 

کوئی مصیبت بھی مجھ پرنہ گزرتی مگریہ کہ میں اسےنہ نبھادیتااوراپنےنفس کوبڑی بڑی ریاضتوں اورمجاہدوں میں ڈالتایہاں تک کہ مجھےدن کویارات کوغیب سےآوازآتی میں جنگلوں میں نکل جایاکرتااورشوروغل مچاتا لوگ مجھےمجنوں دیوانہ بناتےاور شفاخانےمیں لےجاتےاورمیری حالت اس سےبھی زیادہ ابترہوجاتی یہاں تک کہ مجھ میں اورمردے میں کوئی تمیزنہ رہتی لوگ کفن لےآتےاورغسال کوبلواکرمجھےنہلانے کےلئےتخت پررکھ دیتےاورمیری حالت درست ہوجاتی۔

احوال سیاحت وریاضت

 

شیخ ابوالمسعودالحریمنی نےبیان کیاہے کہ میں نےحضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ سےسناآپ نےفرمایا: کہ25برس تک عراق کے بیابانوں میں تنہاپھرتارہا اس اثناء میں نہ خلق مجھےجانتی تھی اورنہ میں خلق کوالبتہ اس وقت میرےپاس جن آیاکرتےتھے میں انہیں علم طریقت ووصول الی اللہ کی تعلیم دیاکرتاتھاجب عراق کےبیابانوں میں سیاحت کی غرض سےنکلاتوحضرت خضرعلیہ السلام میرےہمراہ ہوۓمگرمیں آپکوپہچان نہیں سکتاتھاپہلےآپ نےمجھ سے عہدلےلیاکہ میں آپ کی مخالفت ہرگزنہ کروں گااس کے بعدآپ نےمجھ سےفرمایا: کہ یہاں بیٹھ جاؤمیں بیٹھ گیااورتین سال تک اس جگہ جہاں آپ مجھےبٹھاگئےتھےبیٹھا رہاآپ ہرسال آتےاورمیرےاورفرماجاتے میرےآنےتک یہیں بیٹےرہنااس اثناء میں انکی دنیاوی خواہشیں اپنی اپنی شکلوں میں میرےپاس آیاکرتی مگراللہ تعالی مجھےان کی طرف التفات کرنےکومحفوظ رکھتااسی طرح مختلف صورتوں اورشکلوں میں میرےپاس شیاطین بھی آیاکرتےجومجھے دیتےاورمجھےمارڈالنےکی غرض سےلڑا کرتےمگراللہ تعالی مجھےان پرغالب رکھتا

کبھی یہ اوردوسری صورتوں اورشکلوں میں آکراپنےمقصد میں کامیاب ہونےکی غرض سےمجھ سےعاجزی کیاکرتےتب بھی اللہ تعالی میری مدد کرتااورمجھےان کے شرسےمحفوظ رکھتامیں نےاپنےنفس کےلئےریاضت ومجاہدہ کاکوئی طریقہ اختیار نہیں کیاجسےمیں نے اپنےلیےلازم نہ کرلیاہواورجس پرہمیشہ قائم نہ رہاہوں مدتِ درازتک میں شہروں کےویران اور خراب مقامات پرزندگی بسرکرتااورنفس کوطرح طرح کی ریاضت اورمشقت میں ڈالاگیا چنانچہ ایک سال تک میں ساگ اورپھینکی ہوئی چیزوں سےزندگی بسرکرتارہااوراس اثناء میں سال بھرمیں نےپانی مطلق نہیں پیا پھرایک سال تک پانی بھی پیتارہاپھرتیسرے سال میں پانی ہی پیاکرتاتھاکھاتاکچھ نہیں تھا 

پھرایک سال تک کھاناپانی اورسونامطلق چھوڑدیاایک وقت میں شدت سردی کی وجہ سےشب کوایوان کسریٰ میں جاکرسورہاوہاں مجھےاحتلام ہوگیامیں اسی وقت اٹھااوردجلہ کےکنارےجاکرمیں نےغسل کیااس کےبعد جب میں واپس آیاتومجھےپھراحتلام ہوگیا میں نےجاکرپھرغسل کیااس کےبعدنیندآجانے کےخوف سےچھت پرچڑھ گیا۔برسوں تک میں بغداد کےمحلہ کرخ کے ویران مکانوں 

پررہاکہ اس اثناء میں سواۓکوندلوں کےمیں کچھ نہ کھاتا اس اثناء میں ہرشروع سال میں 

میرےپاس ایک شخص آیاکرتاتھاجوصوف کا جبہ پہنےہوتامیں نےہزارکی تعدادتک علم وفنون میں قدم رکھااورانہیں میں نےحاصل کیاتاکہ دنیاکےتمام جھگڑوں اورمخمصوں سےنجات اورراحتِ حقیقی مجھےمیسرنہ ہو۔

مجھےلوگ دیوانہ ومجنوں بتاتےمیں کانٹوں اوربےکانٹوں کی زمین میں ننگےپیرپھرا کرتااورجوکچھ بھی تکلیف وسختی مجھ پر گزرتی میں اسےنبھاجاتااورنفس کواپنےاوپر کبھی غالب نہ ہونےدیتامجھےدنیاوی زیب وزینت کبھی بھی نہ بھاتی۔

عجیب حالات کاطاری ہونا

 

شیخ عمرکہتےہیں کہ میں نےحضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ سےسناآپ نےفرمایا: کہ ابتداۓسیاحت میں(جومیں نےبیابانوں میں کی تھی) مجھ پربہت سے حالات طاری ہوتےتھےجن میں میں اپنےوجود سےغائب ہوجاتاتھا میں اکثراوقات دوڑاکرتاتھااور مجھےخبربھی نہ ہوتی تھی جب مجھ پروہ حالت طاری ہوتی تھی تواسوقت میں اپنےآپ کودوردرازمقام میں پاتا۔ ایک دفعہ مجھے ایک حالت طاری ہوئی میں اسوقت بغداد کےویران مقام میں تھا یہاں سےمیں تھوڑی دوردوڑکرآگےگیااورمجھےکچھ خبرنہ ہوئی پھرجب مجھ سےیہ حالت جاتی رہی تومیں نےاپنےآپ کوبلادشہترمیں پایاجہاں مجھے بغدادسےبارہ روزکافاصلہ ہوگیامیں اپنی اس حالت پرغورکررہاتھاکہ ایک عورت نےمجھ سےکہا: تم اپنی اس حالت پرتعجب کررہے ہوحالانکہ تم شیخ عبدالقادرہو۔رضی اللہ عنہ۔

شیاطین کامسلح ہوکرآنا

 

شیخ عثمان صیرنی نےبیان کیاہےکہ میں نے حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ سےسنا آپ نےفرمایا: کہ میں شب وروزویران اورخراب مقامات میں رہاکرتاتھااوربغدادمیں نہیں آتاتھا میرےپاس شیاطین مسلح ہوکرہیبت ناک صورتوں میں صف بہ صف آتےاورمجھ سےلڑتےاورمجھ پرآگ پھینک کرمارتےمگرمیں اپنےدل میں ہمت اوراولوالعزمی پاتاجسےمیں بیان نہیں کر سکتااورغیب سےمجھےکوئی پکارکرکہتا عبدالقادر!اٹھو! ان کی طرف آؤہم ان کےمقابلےمیں تمہیں ثابت قدم رکھیں گے اورتمہاری مددکریں گےپھرجب میں ان کی طرف اٹھتاتووہ دائیں بائیں یاجدھرسےآتے اس طرف بھاگ جاتےکبھی ان میں سے میرےپاس ایک ہی شخص آتا اورمجھے طرح طرح سےڈراتااورکہتا یہاں سےچلے جاؤمیں اسےایک طمانچہ مارتاتووہ بھاگتا نظرآتاپھرمیں “لاحولولاقوة الابااللہ العلی العظیم” پڑھتاتووہ جل کرخاک ہوجاتاایک وقت میرےپاس ایک کریہہ منظراوربدبودار شخص آیااورکہنےلگاکہ میں ابلیس ہوں مجھ کواورمیرےگروہ کوآپ نےآجزکردیاہےاس لیےاب میں آپ کےکی خدمت میں رہناچاہتا ہوں میں نےکہا: یہاں سےچلاجامجھےتجھ پراطمینان نہیں ہےمیرایہ کہناتھاکہ اوپرسے ایک ہاتھ ظاہرہوااوراس کےتالو میں اس زورسےمارا کہ وہ زمین میں دھنس گیااس کےبعدیہ میرےپاس پھرآیااس وقت اس کے پاس آگ کےشعلےتھےجن کےساتھ یہ مجھ سےلڑناچاہتاتھاکہ ایک شخص سبزےپرسوار تھااس نےآکرمجھےایک تلواردی توابلیس اپنےالٹےپاؤں لوٹ گیا۔تیسری دفعہ میں نے اس کوپھردیکھااس وقت یہ مجھ سےدوربیٹھا رورہاتھااوراپنےسرپرخاک ڈالتاجاتاتھااورکہ رہاتھاعبدالقادر! اب میں تم سےناامیدہوگیاہوں میں نےکہا: معلون! یہاں سےدورہومیں تیری

جانب سےکسی حالت میں مطمئن نہیں تواس نےکہا: کہ یہ بات میرےلیےعذاب دوزخ سےبھی بڑھ کرہےپھراس نےمجھ پربہت سےشرک اوروساوس شیطانی کےجال بچھا دیےمیں نےپوچھا: کہ شرک اوروساوس کےجال کیسےہیں؟تومجھےبتلایاگیاکہ دنیاوی وساوس کےدوجال ہیں جن سےشیطان تم جیسےلوگوں کاشکارکیاکرتاہےتومیں نےاس معلون کوڈانٹاتووہ بھاگ گیااور سال بھرتک میں ان باتوں کی طرف توجہ کرتارہایہاں تک کہ اس کےوہ تمام جال ٹوٹ گۓپھراس نےبہت سےاسباب مجھ پرظاہرکیےجوہر جانب سےمجھ سےملےہوۓتھےمیں نےجب پوچھاکہ یہ کسطرح کےاسباب ہیں؟ تو مجھےبتلایاگیا کہ یہ خلق کےاسباب ہیں جو تم سےملےہوۓہیں توسال بھرمیں ان کی طرف توجہ کرتارہایہاں تک کہ مجھ سےیہ اسباب منقطع ہوگئےاورمیں ان سےجداہوگیا پھرمجھ پرمیرےباطن کا انکشاف کیاگیاتو میں نےاپنےدل کوبہت سےعلائق میں ملوث دیکھامیں نےدریافت کیاکہ یہ علائق کیسے ہیں؟ تومجھےبتلایاگیاکہ یہ علائق تمہارے ارادےاورتمہارےاختیارات ہیں پھرایک سال تک میں انکی طرف متوجہ رہا یہاں تک کہ وہ سب علائق منقطع ہوگئےتومیرےدل کوان سےخلاصی ہوئی ۔

تزکيہ نفس

 

پھرمجھ پرمیرانفس ظاہرکیاگیاتومیں نے دیکھاکہ اس کےامراض بھی باقی ہیں اور اسکی خواہش ابھی زندہ ہےاوراسکاشیطان سرکش ہےتوسال بھرتک میں نےاسکی طرف توجہ کی یہاں تک کہ نفس کےکل امراض جڑسےجاتےرہےاوراس کی خواہش مرگئی اوراس کاشیطان مسلمان ہوگیااوراب اس میں امرالہی کےسواکچھ بھی باقی نہ رہا اوراب میں تنہاہوکراپنی ہستی سےجداہوگیا اورمیری ہستی مجھ سےالگ ہوگئ تب بھی میں اپنےمقصودکونہیں پہنچاتومیں توکل کے دروازےپرآیاتاکہ میں توکل کےدروازےسے اپنےمقصودکو پہنچوں میں نےدیکھاکہ توکل کےدروازےپربہت بڑاہجوم ہےمیں اس ہجوم کوپھاڑکرنکل گیاپھرمیں شکرکےدروازےپر آیااورمجھےاس دروازےپربھی ایک بڑاہجوم ملامیں اسکوبھی پھاڑکراندرچلاگیااس کے بعدمیں غناکےدروازے پرآیایہاں پربھی مجھےبہت بڑاہجوم ملاجسےمیں پھاڑکراندر چلاگیااس کےبعدمیں مشاہدہ کےدروازےپر آیاتاکہ میں اس دروازےسےداخل ہوکر مقصود حاصل کروں اس دروازےپربھی مجھےبہت بڑاہجوم ملااسےبھی پھاڑکراندر چلاگیا ۔

پھرمیں فقرکےدروازےپرآیاتواس کے دروازےکومیں نےخالی پایامیں اس میں داخل ہوااوراندرجاکردیکھاتوجن جن چیزوں کومیں نےترک کیاتھاوہ سب کی سب یہاں موجودتھیں یہاں سےمجھےایک بہت بڑے روحانی خزانےکی فتوحات ہوئی۔ روحانی عزت غناۓحقیقی اورسچی آزادی مجھے یہاں ملی میں نےیہاں آکراپنی زیست کومٹا دیااوراپنےاوصاف کوچھوڑدیاجس سےمیری ہستی میں ایک دوسری حالت پیدا ہوگئی۔

چیخ سن کرڈاکوؤں کاگھبراجانا

 

شیخ عبداللہ بن جبائی کہتےہیں کہ مجھ سے آپ نےیہ بھی بیان کیاکہ وقت شب کومجھے حالت طاری ہوئی اس وقت میں نےایک بڑی چیخ ماری جس سےڈکیت لوگ گھبرااٹھےانہوں نےجاناکہ شائدپولیس آن پہنچی یہ لوگ نکلےاورمیرےپاس آۓمیں زمین پرپڑاہواتھایہ میرےپاس آکرکھڑے ہوگئےاورکہنےلگا: یہ توعبدالقادرمجنوں ہے اس بھلےآدمی نےہمیں ڈرادیا۔

شیخ طریقت سےملاقات

 

نیز! وہ بیان کرتےہیں کہ مجھ سےآپ نے بیان کیاکہ بغدادمیں بکثرت فتنہ فسادکی وجہ سےایک دفعہ میں نےقصدکیاکہ میں یہاں سےچلاجاؤں چنانچہ جنگل کی طرف نکل جانےکی غرض سےمیں اٹھااوراپناقرآن مجیدکندھےمیں ڈال کر(بغدادکے)محلّہ حلبہ کےدروازےکی طرف چلاتھا کہ کسی نے مجھ سےکہا: کہ کہاں جاتےہو؟ اورایک دھکادیامیں گرپڑامجھےایسامعلوم ہوتاتھاکہ میری پیٹھ پیچھے کوئی کہہ رہاہےکہ عبدالقادر! لوٹ جاؤتمہارےسےخلق کونفع پہنچےگامیں نےکہا:خلق کامجھ پرکیا حق ہے؟ میں اپنےدین کی حفاظت کرنےکےلیے جاتاہوں اس نےکہا: نہیں تم یہی رہوتمہارا دین سلامت رہےگامیں اس کہنےوالےکو دیکھ نہیں سکتاتھا اسکےبعدمجھ پرچندایسے حالات طاری ہوۓجومجھ پربہت ہی دشوار گزرےاورمیں نےان کےلیےخداۓتعالی سے آرزوکی کہ وہ مجھےکسی ایسےآدمی سے ملاۓجو ان حالات کومجھ پرکشف کردے اس لیےمیں صبح کواپنےمقصدمیں کامیابی حاصل کرنےکےلیےنکلا اورایک شخص نےدروازہ کھول کرمجھ سےکہا: کہ کیوں عبدالقادر: تم نےخداتعالی سےکس کس بات کی خواہش کی تھی؟ میں خاموش رہااورکچھ بول نہ سکاپھراس شخص نےغضبناک ہوکر دروازہ بندکرلیاکہ اسکی گردوغبارمیرےمنہ تک آئی میں اس دروازے سےواپس ہواتھا کہ مجھےیادآیا کہ میں نےخداۓتعالی سے کیا خواہش کی تھی اورمیرےدل میں یہ امر واقع ہواکہ یہ شخص اولیاء اللہ سےتھےلہذا میں نےلوٹ کرہرچندانکادروازہ تلاش کیا لیکن میں ان کےدروازےکوپہچان نہ سکا میرےدل پراور بھی یہ بات گراں گزری پھر میں نےبہت دیرکےبعد انہیں پہچانا اورانکی خدمت میں آمدورفت کرتارہا۔ یہ بزگ شیخ حمادالدباس تھے آپ مجھ پرمیرےان مشکل حالات کومنکشف کرتےرہےمیں جب پڑھنےپڑھانےکےلیےآپ کےپاس سےچلا جاتااورپھرواپس آتاتوآپ فرماتےکیوں عبدالقادر؟ یہاں کیسےآۓہوتم توفقیہ ہوفقیاء مین جاؤیہاں تمہاراکیاکام ہے؟ میں خاموش رہتاآپ مجھےسخت اذیت پہنچاتےحتیٰ کہ آپ مجھےمارابھی کرتےاسی طرح سے میں جب آپ کی خدمت میں جاتاتوکبھی کبھی آپ مجھ سےفرماتےکہ آج ہمارےپاس بہت سا کھاناوغیرہ آیا تھاہم نےکھالیااورتمہارے واسطےکچھ نہیں رکھامیرےساتھ آپکا یہ معاملہ دیکھ کرآپکی مجلس کےاور بھی لوگ مجھےایذاتکلیف دینےلگےاورمجھ سے کہنےلگےتم توفقیہ ہوتم ہمارےپاس آکرکیا کرتےہو؟ تمہاراکیاکام یہاں؟ یہ سن کرآپکو حمیت غالب ہوئی اورآپ نےان سےفرمایا: کہ نامعقولو! تم لوگ اسےکیوں تکلیف دیا کرتےہو؟ تم میں توکوئی بھی اس جیسا نہیں میں اسےاگرتکلیف دیتاہوں توامتحان کےلیے مگرمیں دیکھتاہوں کہ وہ نہایت ہی مستقل مزاج شخص ہےاورپہاڑکی طرح ہے کہ کسی طرح سےبھی جنبش نہیں کھاسکتا ۔

بعیت

 

آپ مدت آلعمرابوالخیرحمادبن مسلم بن وردة الدباسؒ کی خدمت میں رہےاور انہی سے آپ نےبعیت کرکےعلم طریقت وادب حاصل کیا۔

مجاہدہ

 

آپ نےایک دفعہ 588ہجری میں اثناۓوعظ بیان فرمایا: کہ 25سال تک میں تنہا رہ کر عراق کےبیابانوں اور ویران مقامات میان سیاحت کرتارہا اور40سال تک میں عشاء کےوضوسےصبح کی نمازپڑھتارہا میں عشاء کےبعدایک پاؤں پرکھڑاہوکرقرآن مجید شروع کرتا اورنیندکےخوف سےاپنا ایک ہاتھ کھونٹی سےباندھ دیتااوراخیررات تک قرآن مجید کوختم کردیتاایک روزمیں شب کوایک ویران عمارت کی سیڑھیوں پر چڑھ رہاتھاکہ اس وقت میرےجی میں آیاکہ اگرتھوڑی دیرکہیں سورہتاتواچھاتھاجس سیڑھی پرمجھےیہ خیال گزراتھااسی سیڑھی

پرمیں ایک پاؤں پرکھڑاہوگیااور میں نے قرآن مجیدپڑھنا شروع کیااورتااختتام قرآن مجیداسی طرح کھڑارہااورگیارہ برس تک میں اسی برج میں جوکہ اب برج عجمی کے نام سےمشہورہےاوراسی سبب سےاسےبرج عجمی کہنےلگےآپ نےفرمایا: میں نےاس برج میں خداۓتعالی سےعہدکیاتھاکہجل جب تک میرےمنہ میں لقمہ دےکرمجھےکھانانہ کھلایاجاۓگااسوقت تک میں کھانانہ کھاؤں گااورجب تک مجھےپانی نہ پلایاجاۓگااس وقت تک میں پانی نہ پیوں گاچنانچہ میں 40 دن تک اسی برج میں بیٹھارہااس اثناء میں میں نےنہ کھانا کھایا نہ پانی پیا جب چالیس روز پورےہوچکےتومیرےسامنے ایک شخص کھانا رکھ گیامیرانفس کھانےپر گرنےلگامیں کہا: خداکی قسم میں نےجوخدا سےمعاہدہ کیاہےوہ ابھی پورا نہیں ہواپھر میں نےباطن میں چیخ سنی کہ کوئی چلّاکر بھوک بھوک کہہ رہاہےمیں نےاس کا بلکل خیال نہیں کیااتنے میں شیخ ابوسعیدمخزمی 

کامیرےقریب سےگزرہواانہوں نےبھی یہ آوازسنی اورمجھ سےآن کرکہاعبدالقادر! یہ کیاشورہےمیں نےکہا: یہ نفس کی بےقراری ہےاورروح مطمئن ہےوہ اپنےمولاکی طرف لولگاۓہوۓہےپھرآپ مجھ سےیہ فرماکر چلےگئےکہ اچھاتم باب الازج میں چلےآؤ میں نےاپنےجی میں کہاتاوقتیکہ مجھےاطمينان نہ ہوگامیں اس برج سےباہر قدم نہ رکھوںگا اس کےبعدحضرت خضر علیہ السلام نےمجھےآکرکہا کہ تم ابوسعید مخزمی کےپاس چلےجاؤ میں آپ کےپاس آیاتوآپ دروازےپرکھڑےمیرا انتظارکررہے تھےآپ نےفرمایا: عبدالقادر! تمہیں میراکہا کافی نہ ہواپھرآپ نےدستِ مبارک سےخرقہ پہنایااس کےبعدمیں آپ ہی کی خدمت میں رہنےلگا

لقب”محی الدین”عطاہونا

 

آپ سےاس کاسبب دریافت کیاگیاتوآپ نے فرمایا: کہ 511 ہجری کاواقعہ ہےکہ میں اپنی بعض سیاحت سےبغدادواپس آیاتواس وقت میراایک مریض پرسےگزرہواجونحیف البدن اورزرد روتھااس نےمجھےسلام کیااوراپنےنزدیک بلاکرکہاکہ مجھےاٹھاکر بٹھالومیں سلام کاجواب دےکراس کےپاس گیااوراسےاٹھاکربٹھایاتووہ نہایت ہی موٹاتازہ اوروجیہ خوش رنگ معلوم ہونےلگاغرض! اسکی حالت درست ہوگئی مجھےاس سے کچھ خوف ساہواپھراس نےمجھ سےکہا: کہ تم جانتےہو؟ میں نےکہا: نہیں اس نےکہا: میں دین ہوں مرنےکےقریب ہوگیاتھاکہ خداۓ تعالی نےمجھےتمہاری بدولت ازسرِنو زندہ کیاپھرمیں اسے چھوڑ کرجامع مسجد میں آیایہاں پرایک شخص نےآن کرمجھ سے ملاقات کی اورمجھےیاسیدمحی الدین کہہ کر پکاراپھرجب میں نمازشروع کرنےکےقریب ہواتوچاروں طرف سےلوگ آکرمجھکو یا محی الدین کہہ کرپکارنےلگےاورمیری بعیت کرنےلگےاس سےپہلےکسی نےمجھے اس نام سے نہیں پکاراتھا۔

Scroll to Top
×