پاک ذات ہے جس نے حکم شرعی سے تم کو ڈھانپنا اور علم سے تم کو کھول دیا۔ تم میں بعض لوگ نیلے رنگ اور صوف کے کپڑوں سے نیکو کاروں کی صورت بنائے ہوئے ہیں، حالانکہ وہ ہمارے نزدیک کافر ہیں۔
استغفار کو اپنی زبان کی عادت قرار دے، اور (گناہوں کے) اقرار کو اپنے قلب کی عادت بنا اور سکون کو اپنے باطن کی عادت۔ ذکر اوّل زبان سے ہوا کرتا ہے، اس کے بعد قلب کی طرف پہنچتا ہے پھر محبّت اور شوق آتا اور زبان پر ظاہر ہونے لگتا ہے۔
مومن اپنی کمائی اور سببِ معاش کے ذریعہ سے کھاتا ہے، اور جانتا ہے کہ یہ (سبب اور روزی سب) اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب قوی الایمان بن جاتا ہے تو توکّل کے ذریعہ سے کھاتا ہے، اور اس کو بھی اللہ ہی کی طرف سے سمجھتا ہے اور پہلے خیال سے سرمو تبدیلی واقع نہیں ہوتی، اگر وہ ہزار برس دجلہ میں بیٹھا رہے (کہ روزی پہنچنے کی بظاہر کوئی صورت ہی نہ ہو) تب بھی اس کا قلب حق تعالیٰ ہی کے ساتھ وابستہ رہے گا۔
اصل توحید یہ ہے کہ مخلوقات کو معدوم سمجھے۔ سب سے باہر نکل جائے اور طبیعت بدل کر فرشتوں کی سی بن جائے (کہ مصیبت صادر ہی نہ ہو سکے) اس کے بعد فرشتوں کی طبیعت سے بھی فنائیت حاصل ہو اور اپنے رب کے ساتھ لاحق ہونا نصیب ہو جائے۔ اس وقت وہ تجھ کو پلائے جو کچھ بھی پلائے۔